برطانوی تحقیق کے مطابق چاول اور گندم کا چوکر صحت مند غذا کا اہم ترین جزو ہوتا ہے جو قبض، بواسیر، انتڑیوں کے کینسر، وریدوں کے پھول جانے اور دل کی شریانوں میں خون کو جمنےسےروکنے میں بڑی مدد دیتا ہے۔
جدید طب کے ماہرین کا مشورہ ہے کہ غذائوں میں ریشے والی غذائوں کا استعمال زیادہ رکھا جائے تاکہ مختلف امراض شکم سے بچا جاسکے۔ اگرچہ آج دنیا بھر کے ماہرین غذائیت ریشے دار غذائوں کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں اور انسانی صحت کے لئے ریشے کی افادیت کے قائل بھی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بیسویں صدی کے کئی عشروں تک دنیا کے ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ریشے دار غذائوں کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی تاہم آج صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور ہم بڑے شوق سے ریشے دار خوراک کو استعمال کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ بغیرچھنے آٹے کی روٹی اور ڈبل روٹی کے علاوہ گندم سے تیار کردہ بسکٹ کو جو اپنے اندر ریشے کی خاصی مقدار رکھتے ہیں ذیابیطس کے مریض بطور دوا اور خوراک بھی استعمال کررہے ہیں۔یہ 1970ء کی بات ہے کہ جب ڈاکٹر ڈینس نے طویل تحقیق کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ جو لوگ ریشے دار غذائوں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ قولون (بڑی آنت) کے کینسر، امراض قلب، پتے کی پتھری، آنتوں کی سوزش اور ذیابیطس کی بیماریوں سے کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔ امریکی ڈاکٹر جان ہاروے کیلاگ نے بھی 1920ء میں یہ بات بڑے زور و شور سے کہی تھی کہ ’’ریشے دار غذائوں کے استعمال سے امریکی اپنی آنتوں کی صحت ٹھیک رکھ سکتے ہیں‘‘طبی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ اناج کو مشینوں کے ذریعے پیس کر مصفا بنانے کا جو عمل ایک صدی قبل شروع ہوا تھا اس نے غذائوں کو صرف ریشے سے ہی پاک نہیں کیا بلکہ بتدریج انسانوں کو صحت کے لئے کئی پیچیدہ مسائل سے بھی دو چار کردیا۔ حالیہ طبی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ غذائی ریشہ متعدد افعال انجام دینے والا عنصر نہیں ہے۔ریشہ کیا ہے؟:تاریخ طب دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ریشے کی اہمیت و افادیت صدیوں قبل بھی مسلمہ تھی جڑی بوٹیوں کے سفوف سے تیار ہونے والے معجون اور جوارش بھی اسی اصول کو پیش نظر رکھ کر تیار کئے جاتے تھے معجون کی دوائیں ذرا موٹی ہوتی تھیں تاکہ یہ معدے سے جلد نکل کر آنتوں میں پہنچیں اور اپنے چوبی ریشے سے ان کا فعل تیز کریں۔ واضح رہے کہ ادویات سازی میں آج بھی یہ فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ گویا دور قدیم سے انسانی غذا میں ریشے کی اہمیت مسلمہ چلی آرہی ہے۔ غذائی ریشے سے مراد غذا کے وہ اجزا ہیں جو انسانی نظام انہضام کے خامرات (انزائم) اور ہاضم رطوبات سے متاثر نہیں ہوتے یعنی گلتے نہیں ہیں۔ یہ نباتاتی ریشے جو دراصل پودے کے خلیات کی دیواریں ہوتی ہیں معدے اور آنتوں میں سے گزر کر بھی حل نہیں ہوتے۔غذائی ریشے کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دانتوں اور معدے سے لے کر بڑی آنت تک ہضم ہوئے بغیر گزر جاتا ہے اور اس کی ماہیت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ بڑی آنت یا قولون میں پہنچے کے بعد آنتوں کے بیکٹیریا کی وجہ سے اس میں سے نصف ریشے میں خمیر پیدا ہوکر گیس بنتی ہے۔ریشے کی خصوصیات:ریشے کی چونکہ کئی قسمیں ہیں ان میں سے ہر ایک کی خصوصیات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اس لئے کسی ایک قسم کے غذائی ریشے کے استعمال سے تمام فائدے حاصل نہیں ہوسکتے تاہم تمام ریشے صحت کیلئے مفید ہیں۔ یہ بات صدیوں کے تجربات سے ثابت ہوچکی ہے کہ ریشے میں قبض دور کرنے کی تاثیر ہوتی ہے۔ ریشے بڑی عمدگی سے آنتوں کی کارکردگی کو بہتر رکھتے ہیں۔ ریشے اپنے سے کئی گنا زیادہ پانی جذب کر کے بڑی آنت کو گیلے کپڑے کی طرح نم رکھ کر اجابت کو سخت نہیں ہونے دیتے۔ ان سے فضلے کا حجم زیادہ اور نرم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ خارج ہوتا ہے۔ قبض دور کرنے کیلئے دلیہ، بے چھنے آٹے کی روٹی، بھورے چاول، پھل اور پتے دار سبزیوں کے ریشے بہترین ہوتے ہیں۔آنتوں کی بیماریاں:تجربہ اور مشاہدے سے یہ بات ہوئی ہے کہ آنتوں کی کئی بیماریاں دراصل ان پر پڑنے والے بوجھ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ آنتیں جب بار بار فضلہ خارج کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس سے ان پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان میں بل پڑ جاتے ہیں اور بواسیر کی شکایت بھی ہو جاتی ہے۔ غذائی ریشے کا فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کی وجہ سے بڑی آنت میں سرطان لاحق نہیں ہوتا کیونکہ ریشے کی وجہ سے فضلہ زیادہ دیر تک اس آنت میں نہیں رکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ زہریلے مواد اور رطوبات کو سمیٹ کر جلد خارج کردیتا ہے۔
وزن پر اثر:غذا میں ریشہ زیادہ ہوتا ہے اس میں حراروں (کیلوریز) کی تعداد بھی اتنی ہی کم ہوتی ہے۔ خود ریشے میں بھی حرارے نہیں ہوتے ہیں۔ ریشے سے پیٹ کے جلد بھرنے کااحساس بھی ہوتا ہے اور یہ اپنے اندر زیادہ پانی جذب کرکے خطِ ہضم سے جلد گزر جاتا ہے۔ غذائی ریشے کی وجہ سے چونکہ انہیںچبانے میں زیادہ وقت لگتا ہے اس وجہ سے بھی کھانا کم کھایا جاتا ہے یہی سبب ہے کہ دماغ پیٹ بھر جانے کا اشارہ جلد دے دیتا ہے۔امراض قلب:غذائی ریشے سے چونکہ خون میں کولیسٹرول کی سطح کم رہتی ہے اس طرح امراض قلب کا خطرہ بھی کم رہتا ہے اس سلسلے میں ریشے کی قسم کی بھی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کولیسٹرول کی سطح پر 90فیصد سے زیادہ سلولوس والے ریشے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے لیکن پانی میں حل پذیر ریشوں مثلاً پھلوں میں پائے جانے والے ریشے، پیکٹین، گوارگم (پھلیوں میں پایا جانے والا ریشہ) جئی (Oat) اور گاجر کے ریشے سے کولیسٹرول کی سطح میں نمایاں کمی ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مشرقی طب میں گاجر اور اس کے مربے کا استعمال صدیوں سے امراض قلب کے لئے کیا جارہا ہے۔ اطباء کے مطابق ریشے کی افادیت کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس کے استعمال سے کولیسٹرول میں شامل صفراوی تیزابوں کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ذیابیطس: ذیابیطس کے نتیجے میں لبلبلہ جسم کو درکار انسولین کی مقدار نہیں بنا پاتا ہے لہٰذا مریضوں کو مصنوعی طریقوں سے انسولین لے کر جسم میں شکر کی مقدار کو متوازن رکھنا پڑتا ہے۔ تاہم اب معالجین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ذیابیطس کے جو مریض ریشے دار غذائوں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ خون میں شکر کی مقدار کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ ریشے کے ماخذ: ریشے کے ماخذوں میں سب سے نمایاں گندم کا چوکر، بھوسی، سالم اناج، مثلاً گندم، چاول، جو، رائی، جوار، دالیں، ٹماٹر، گاجر، شلجم، چقندر، آلو، امردو، گوبھی، خرفہ، سلاد شامل ہیں۔بھوسی یا چوکر جو دراصل اناج کا چھلکا ہوتا ہے اس میں غذائی ریشے کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
اس میں ہر قسم کا ریشہ موجود ہوتا ہے۔
گندم، جئی، جوار، مکئی اور باجرے کا چوکر قبض کشائی کے لئے بے حد مفید پایا گیا ہے۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ جنگلی جئی کا چوکر کولسٹرول کو کم کرنے کی قدرتی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس میں فولاد، کیلشیم، حیاتین اور پروٹین کی بھی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے اطباء اسے حقیقی غذا قرار دیتے ہیں ایک
دالوں میں بھی ریشے کے اجزاء خاصی مقدار میں ہوتے ہیں جن میں سے زیادہ تر پانی میں حل پذیر ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ بڑھی ہوئی جسمانی چربی کو کم کرنے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ سویابین خون میں شکر کی مقدار کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ جن غذائوں میں ریشہ بالکل نہیں ہوتا ہے ان میں گوشت، مچھلی، انڈے، دودھ، پنیر اور چینی وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں